مسیحیت اور فطرت انسانی - عیسائی دین و‌مذہب کے عقائد ١ نومولود کے متعلق مسیحی عقیدہ

greenspun.com : LUSENET : 3D_Floyd : One Thread

چھوٹا نومولود بچہ سب کو پیارا ہوتا ہے۔ اس کے چہرے سے معصومیت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوتا۔ گناہ کیا کرتا ابھی، اس میں گناہ کرنے کی صلاحیت و‌طاقت ہی نہیں ہوتی۔ کیا کوئی صحیح الخیال شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر یہ نومولود بچہ مر جائے تو خداوند تعالٰی اس کو دوزخ میں داخل کریں گے؟

ہرگز نہیں، خداوند تعالٰی تو گناہگاروں کو بھی معاف کرنے والے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بے گناہ جان کو دوزخ کی آگ میں ڈال دیں؟

لیکن آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عیسائی دین و‌مذہب کے بڑوں کا یہی عقیدہ ہے۔ ان کے مطابق اگر کوئی نومولود بچہ ایسی حالت میں فوت ہو جائے جبکہ اس کے والدین نے کسی پادری کو پیسے دے کر اسکا بپتسمہ نہ کرایا ہو تو خداوند تعالٰی اس بچے کو دوزخ میں داخل کردیں گے۔

عیسائی پادری جان کیلون، جو کہ پروٹیسٹنٹ فرقے کے بانیوں میں سے ہے کہتا ہے؛

“And therefore infants themselves, as they bring their condemnation into the world with them, are rendered obnoxious to punishment by their own sinfulness, not by the sinfulness of another. For though they have not yet produced the fruits of their iniquity, yet they have the seed of it within them; even their whole nature is as it were a seed of sin, and therefore cannot but be odious and abominable to God.”

"…اور اسی لئے نومولود خود بھی، چونکہ وہ اپنے ساتھ اپنی گناہگاری لے کر آتے ہیں، حالانکہ انہیں نے اب تک اس گناہگاری کا کا کوئی اثر ظاہر نہیں کیا، لیکن اس کا بیج ان میں موجود ہے، ان کی طبیعت مجسم گناہگاری کا بیج ہے اور خدا کی نظر میں بری و‌بد ہی ہو سکتی ہے"۔

یعنی جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام اور حوا رضی اللہ عنہا کی نافرمانی کا بوجھ لے کر آتا ہے جو انہوں نے دنیا میں بھیجے جانے سے پہلے جنت میں کی تھی، حالانکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہیں کیا، اس کے باوجود، کیلون کے مطابق وہ خداوند تعالٰی کی نظر میں گناہگار ہوگا! اور دوزخ میں بھیجے جانے کا مستحق!!

سوچئے، یہ خداوند تعالٰی پر کتنا بڑا الزام ہے کہ وہ ایک کے گناہ کو دوسرے پر چسپاں کرتا ہے!

مسیحی مذہبی شاعر مائکل ہگنسورتھ اس مسیحی عقیدے کو اپنی نظم «ڈے آف ڈوم» یعنی یوم حشر یا یوم قیامت، طبع ١٦٦٢‌ء میں ان الفاظ میں ظاہر کرتا ہے؛

You sinners are, and such a share

As sinners may expect,

Such you shall have; for I do save

None but my own elect.

Yet to compare your sin, with theirs

Who lived a longer time,

I do confess yours so much less

Tho' every sin's a crime.

A crime it is, therefore in bliss

You may not hope to dwell;

But unto you, I shall allow

The easiest room in Hell.

شاعر کہتا ہے کہ بروز حشر بپتمسہ کے بغیر مر جانے والے نومولود بچے خداوند تعالٰی سے فریاد کریں گے کہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تو انہیں آدم علیہ السلام کی نافرمانی کی وجہ سے جہنم میں کیوں پھینکا جارہا ہے؟ جبکہ خود آدم کو تو آپ نے معاف کردیا ہے۔ تو بزعم عیسائی شاعر خداوند تعالٰی کہیں گے (مندرجہ بالا اشعار کا ترجمہ)؛

"تم گناہگار ہو اور آخرت کا وہ حصہ جو گناہگاروں کیلئے ہے (یعنی دوزخ کی آگ) تم اسی کے امیدوار ہو سکتے ہو۔ تمہیں وہی ملے گی کیونکہ میں اپنے چنے ہوئے بندوں ہی کو بچاتا ہوں۔ مگر اگر میں تمہارے گناہ کا مقابلہ ان سے کروں جو تم سے زیادہ عمر زندہ رہے تو میں یہ ماننے پر مجبور ہوں کہ تمہارے گناہ کم ہیں۔ مگر ہر گناہ جرم ہے۔ (اور تمہارا گناہ بھی) جرم ہی ہے۔ اس لئے تم کبھی جنت میں نہیں جا سکتے۔ میں تمہارے لئے صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ تمہیں دوزخ میں سب سے کم عزاب والے کمرے میں ڈالوں"۔

سوچنے کی بات ہے، خدا کی لامحدود رحمت ان معصومین کے لئے صرف یہی کر سکی کہ انہیں دوزخ کا کم ترین عزاب دیا جائے!!

خدا تعالٰی تو رحمت و‌محبت والے، عدل و‌انصاف والے، گناہگاروں کو معاف کرنے والے ہیں۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک انسان کے گناہ کو دوسرے انسان پر چسپاں کردیتے ہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا عادل بھی ہو اور ساتھ ساتھ معصوم کو گناہگار کی سزا دینے والا بھی؟ کیا یہ انصاف ہے کہ گناہ کسی نے کیا ہو اور سزا کسی کو ملے؟ جرم تو باپ کرے اور سزا اس کی اولاد کو ملتی رہے، کیا یہ عدل ہے؟ اگر یہ عدل ہے تو ناانصافی کیا ہے؟

قریب قریب اسی قسم کا عقیدہ عیسائی دین میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ہے کہ خدا نے انسانیت کے گناہوں کے کفارے میں ایک معصوم جان حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھا دیا، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناانصافی ہوسکتی ہے؟

اس کے برعکس دین فطرت، دین اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ گناہ کرنے والے کا بوجھ، گناہ کرنے والا ہی اٹھائے گا، اس کی جگہ کسی اور کو سزا نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ خدا تعالٰی قرآن پاک میں فرماتے ہیں؛

[بسم اللہ الرحمٰن الرحیم]
ولا تزرو وازرة وزر أخرى

کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا

یعنی گناہ کا عزاب گناہگار ہی سہے گا، کسی دوسرے کو اس کا عزاب نہیں دیا جائے گا۔

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛

كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أويمجسانه
(صحیح بخاری)

یعنی تمام پیدا ہونے والے بچے دین فطرت پر (یعنی اسلام پر) پیدا ہوتے ہیں، بعد میں ان کے والدین انہیں یہودی، نصرانی (عیسائی) یا مجوسی (پارسی) بنا دیتے ہیں۔

دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہر بچہ دین اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے بعد میں اس کے والدین اسے دین فطرت سے ہٹا کر غیر فطری ادیان، یہودیت، مسیحیت، پارسیت وغیرہ میں مبطلہ کردیتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی نومولود فوت ہو جائے تو وہ بے گناہ اور مسلم مرے گا اور ایسوں کا ٹھکانا جنت ہے۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اکثر چھوٹے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کرتے تھے؛

میرے لئے دعا کر کیونکہ تو نے ابھی گناہ نہیں کیا
(ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ- بروایت خلفائے راشدین از امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ)

مقابل ہے آئینہ



-- مقابل ہے (حیران@مسیحی.عقائد), January 30, 2004

Moderation questions? read the FAQ